Metro53 - کراچی(ویب ڈیسک)سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ ملک میں آج اگر آئینی حکومت نہیں اور میں بطور جج کچھ نہیں کر رہا تو اپنے حلف کی خلاف ورزی کررہا ہوں۔
کراچی میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ وہ حلف یہ ہے کہ بغیر کسی خوف کے قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہے،سب سے بڑھ کر یہ کہ آئین کا دفاع کرنا ہے،میں اس حلف کا پابند ہوں ، میں لوگوں کو جوابدہ ہوں،اللہ کا نام لے کر حلف لیا اس لئے اللہ کو جوابدہ ہوں۔
سینئر جج سپریم کورٹ کاکہناتھا کہ ملک میں آج اگر آئینی حکومت نہیں اور میں بطور جج کچھ نہیں کر رہا تو اپنے حلف کی خلاف ورزی کررہا ہوں،ان کاکہناتھا کہ برطانیہ میں صدی سے لکھا ہوا کوئی آئین نہیں ، لیکن قانون کی بالادستی ہے ،بدقسمتی سے ہمیں سکولوں میں تاریخ بھی متضاد پڑھائی جاتی ہے،جس معاشرے میں سچائی ختم ہو جائے وہ تبا ہ ہو جاتے ہیں۔
ان کاکہناتھا کہ پاکستان کے دو حصوں کیلئے ایک آئین بن رہا تھا،اس کیلئے ایک اسمبلی منتخب ہوئی تھی،کسی دھاندلی کے ذریعے نہیں بنی تھی،جب انہوں نے آئین بنا لیا اور پیش کرنے کا وقت آیا تو اسمبلی تحلیل کردی،وہی سے پاکستان ٹوٹنے کی بنیاد رکھی گئی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ بنگالی ہم سے الگ نہیں ہونا چاہتے تھی،1962سے پہلے حکمرانوں نے کہنا شروع کردیا یہ ہم پر بوجھ ہیں،جسٹس منیر کی کتاب پڑھنی چاہے،یہ بار آمریت کیخلاف فاطمہ جناح کے ساتھ بھی کھڑی تھی، بحیثیت جج مجھے ایک چیز قطعاً سمجھ نہیں آتی،جنرل ضیا وردی میں برطانوی نشریاتی ادارہ کو انٹرویو دے رہا ہے،سوال ہوا ذوالفقار بھٹو کا کیس چل رہا ہے ججز پر بڑا پریشر ہوگا، ضیا الحق نے کہاکہ نہیں ایسا نہیں ہے،انہی ججز نے بعد میں تسلیم کیا کہ پریشر کی وجہ سے سولی پر لٹکایا ،ججز نے اپنے آپ کو استعمال ہونے دیا، اس میں بھی تین جج مخالف تھے،ان میں سے دو یہاں سے تعلق رکھتے تھے،جسٹس حلیم اور جسٹس تراب پٹیل، اصل حکمران عوام ہیں۔
آئین کی بنیاد یہ ہے کہ حق حکمرانی عوام کا ہے،ایک شرط یہ ے کہ کوئی ادارہ پولیٹیکل انجینئرنگ نہیں کرے،جو عوامی نمائندے ہوں گے وہ صاف شفاف طریقے س منتخب ہو کر اائیں گے،صاف شفاف طریقے سے منتخب نمائندے آج تک صرف ہمارا خواب ہی ہےجہاں بھی آمریت ہوتی ہے واس میں بھی الیکشن ہوتے ہیں۔