دس محرم الحرام۔شہادت امام حسین علیہ اسلام

دس محرم الحرام۔شہادت امام حسین علیہ اسلام
Metro53

Metro53 - دس محرم الحرام کا دن یعنی کے شہادت سید الشہداء ، ریحانتہ الرسول ، سبط نبی، نواسہ رسول ، لال علی، جگر گوشئہ بتول یعنی کے حضرت امام حسین علیہ السلام ، جناب نبی کے نواسے ، علی کے لال ، جناب بتول کے جگر کا ٹکڑا ، آپ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں ۔

 آپ وہ ہیں جن کو نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے کندھوں پر سواری کروائی ، وہ ہستی جن کے قدموں کی خاک کو چومنا ہم جیسے غلاموں کی خواہش ہے جناب نے ان کے کندھوں پر سواری کی ہوئی ہے ، ایک دفعہ پاک محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے دوران حالت سجدہ میں تھے تو امام آئے اور آپ کی پشت مبارک پر بیٹھ گئے جناب سرور کائنات محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت تک سجدہ کی حالت سے نہیں اٹھے جب تک امام پشت مبارک پر بیٹھے رہے اگر آپ کی شان اور فضیلت میں بیان کرنا شروع کردوں تو شاید میرے الفاظ اور وقت ختم ہو جائے پھر بھی جناب پاک امام حسین کی شان ختم نہیں ہوگی اور اس سے بڑھ کر یا اس سے افضل شان کیا ہوگی کہ وہ نبی کے نواسے ، علی اور جناب پاک بی بی فاطمہ کے لال ہیں ،میری رائے کے مطابق یہاں پر ہر فضیلت اور ہر شان ختم ہو جاتی ہے ، دس محرم الحرام کو جناب پاک امام حسین علیہ السلام کو شہید کر دیا گیا تھا ، یہاں پر میں  یہ بتاتا چلوں کہ امام حسین علیہ السلام کو عیسائیوں یا یہودیوں نے شہید نہیں کیا بلکہ اسی نبی کی امت اور پیروکاروں نے شہید کیا جس نبی کے وہ نواسے تھے اور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اپنی حیات مبارکہ میں بتا چکے تھے کہ یہ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں اور یہ میری اہل البیت ہے ان کے ساتھ پیار اور محبت سے پیش آنا اور یہ بھی فرمایا " حسین مجھ سے ہے اور میں حسین میں سے ہوں" اس کا مطلب جس نے حضرت امام حسین علیہ السلام کو تکلیف پہنچائی اس نے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف پہنچائی ، تو پھر جنھوں نے امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا وہ کس دین پر چل رہے تھے ، یہاں پر مجھے ایک شعر یاد آرہا ہے ۔

نہیں نہیں وہ فقط گردن حسین نہ تھی

نبی کے بوسے بھی کاٹے ہیں تیرے خنجر نے

یہ سارا واقع ہجرت کے ساٹھ سال بعد پیش آتا ہے تو کیا ایسا ہوا کہ ساٹھ سال تک نبی کے نواسے کو شہید کر دیا گیا ، یہ ایک جائز سوال ہے ، اس کے بعد میں جو بات کرنے لگا ہوں اس کی وجہ سے مجھ پر فوراً کوئی فتویٰ نہ لگا دیجئے گا کیونکہ کہ ہر شخص نے فتوے تو اپنی جیب میں رکھے ہوتے ہیں ، کہ وہ ملعون یزید وہ نمازی بھی تھا ، تہجد گزار تھا، روزے دار تھا، حافظ قرآن تھا ، اور تمام نمازیں با جماعت ادا کرتا تھا اور اپنے حساب سے  ہر وہ نیک  کام کرتا تھا جسے آج کا مسلمان دین سمجھتے ہیں ، بے شک نماز بہت ضروری ہے روزے بہت ضروری ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ظالم کے خلاف کھڑے ہونا ، ظلم کا مقابلہ کرنا ، اس کا ساتھ نا دینا اور سعادات کا اتنا احترام کرنا جتنا نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا اتنا کرنا اور کسی دوسرے کی دل آزاری نہ کرنا اور ہر شخص کے حقوق پورے کرنا بھی دین کے اہم ترین جزو ہیں ، ہمارا دین ہمیں اس بات کا حکم دیتا ہے کہ جہاں ظلم ہوتا دیکھوں وہاں ڈٹ جاؤں لیکن تب کے مسلمان اور آج کے مسلمان بھی اس لیے چپ کر جاتے ہیں کہ تنخواہ ان سے لیتے ہیں ، رزق کا معاملہ ہے ، جان کا معاملہ ہے ، ہم مسلمان ہیں اور ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ رزق کا وعدہ بھی رب نے کیا ہے اور جان بھی میرے رب کے ہاتھ میں ہے تو پھر ہمیں بلا خوف و خطر ڈٹ جانا چاہیے ، اور میری ایک بات یاد رکھیں گا نام ان کا ہی باقی رہتا ہے جو ڈٹ جاتے ہیں جو ظالم کو نہیں مانتے ، جیسا کہ کربلا میں وقتی طور پر اور یزید کے مطابق تو جیت اس کی ہوگئی لیکن تب سے لے کر اب تک ، اور اب سے لے کر قیامت تک نام صرف اور صرف میرے پاک حسین کا رہے گا ، وہ ایک شعر بھی ہے

اس سے بڑھ کر جیت کیا

یزید تھا ، حسین ہے

اس کے علاؤہ ہمیں کربلا سے ایک اور سبق ملتا ہے اور وہ ہے صبر کا ، یعنی کہ پاک امام کی آنکھوں کے سامنے سارا کنبہ شہید ہوگیا اور انہوں نے صبر کیا اور کہا کہ میں رب کی رضا میں راضی ہو ں ، اس کے علاؤہ ہمیں کربلا سے یہ سبق بھی حاصل ہوتا ہے کہ قرآن اور نماز نہیں چھوڑنی ، کیونکہ ان دونوں چیزوں کو  امام نے آخری وقت تک نہیں چھوڑا ۔امام عالی مقام نے اپنا سر تو کٹوا دیا ، شہادت کا جام تو پی لیا مگر نماز نہ چھوڑی۔  کربلا کی اس زمین پر میرے امام کی ہر چیز بے مثل تھی چاہے وہ آپ کا صبر ہو ، آپ کی استقامت ہو ، آپ کی ثابت قدمی ہو ، یا آخری وقت میں آپ کی نماز ہو سب کچھ بے مثل تھا ، یہاں پر مجھے امام کی شان اور مناسبت سے ایک شعر یاد آرہا ہے۔

کربلا کی خاک پر کیا آدمی سجدے میں ہے

موت رسوا ہوچکی ہے زندگی سجدے میں ہے

وہ جو اک سجدہ علی کا بچ رہا تھا  وقت فجر

فاطمہ کا لال شاید اب اسی سجدے میں ہے

میری رب باری تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں امام حسین علیہ السلام جیسا صابر ، ان جیسا  متقی، ان جیسا نمازی اور ان جیسا قرآن کا قاری ، اور ان کے جیسے ظالم اور جابر کے خلاف کھڑے ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

شیئر کریں